تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری، مدیر شعور ولایت فاونڈیشن
عہد حاضر پر ایک نظر
حوزہ نیوز ایجنسی | اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا آج کا معاشرہ مختلف قسم کی روحانی بیماریوں میں مبتلا ہو کر مفاسد کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہے، مادی زندگی کے اسباب و وسائل میں جتنی ترقی ہے اسی اعتبار سے معاشرہ اخلاقی فضائل میں پیچھے ہٹ چکا ہے بلکہ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ زندگی مزید مسموم اور دردناک ہوتی جارہی ہے ،جن لوگوں نے تکالیف سے بچنے کیلئے مسلسل کوششیں کی ہیں وہ کثافت وپلیدگی کے آغوش میں جا پڑے اور اندرونی اضطرابات اور باطنی رنج وغم کو بھلانے کے لئے برائیوں کے دلدل میں جا گرے۔
ایسا لگتا ہے جیسے معاشرہ کے افراد نے اپنے کو ہر قید و بند اور ہر شرط سے آزاد کر کے انحطاط کے میدان میں آگے بڑھنے کی بازی لگا رکھی ہے ،اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ترقی کے روز افزوں وسائل سے برعکس استفادہ کیا جا رہا ہے مختصریہ کہ مادی لبھانے والی چیزیں امید و آرزو کامحور بن گئی ہیں ،ضلالت و گمراہی اور گناہ اپنا منحوس سایہ معاشرہ پر ڈال کر وحشت ناک طریقہ سے نمایاں ہوگئے ہیں۔
اس دگرگوں ماحول کو دیکھ کرایک فرانسیسی دانشور "ڈاکٹر کارل"چیخ اٹھتاہے:"ہم کو ایک ایسی دنیا کی شدیدضرورت ہے جس میں ہر شخص اپنے لئے اپنی زندگی میں ایک مناسب مکان تلاش کر سکے جس میں مادیت و معنویت کا چولی دامن کا ساتھ ہو تاکہ ہم یہ معلوم کر سکیں کہ زندگی کس طرح بسر کریں ،کیونکہ یہ بات تو ہم سب ہی جان چکے ہیں کہ زندگی کی گلیوں میں قطب نما اور راہبر کے بغیر چلنا بہت ہی خطرناک ہے"۔(٢٢)
حالات حاضرہ کودیکھ کر اس انگریز دانشور کاچیخنا اور فریاد کرنا بجا ہے اس لئے کہ آبادیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں میں بھی دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے ،ایک طرف اختلاف کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں تو دوسری طرف رذائل اخلاقی کازہریلا سانپ اپنا پھن پھیلائے ڈسنے کو تیارہے ،اس مسموم اور تاریک ماحول میں انسان کرے تو کیا کرے...؟؟
اخلاق رسولؐ کی ضرورت
ڈاکٹر ژول رومان کاکہناہے:"اس زمانے میں علوم نے تو کافی ترقی کی ہے لیکن ہمارے اخلاقیات اور جذبات و احساسات اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں ،اگر ہمارے اخلاقیات بھی عقل ودانش کے شانہ بہ شانہ ترقی کرتے تو ہم کو یہ کہنے کا حق تھا کہ انسان کی مدنیت "جو فکر و نیک ارادوں کی زائیدہ ہے"بھی ترقی کرگئی ہے"۔(٢٣)
اس کی باتوں میں یقینا ًحقائق کے موتی موجود ہیں ،آج کی بگڑتی ہوئی حالت کا اہم ترین سبب اخلاقیات کی بے پناہ کمی ہے اور یہ تو طے ہے کہ جس تمدن و معاشرے پر مکارم اخلاق کی حکمرانی نہیں ہوتی وہ توازن و تعادل کے بہ موجب تباہ و برباد ہوجاتاہے ،معاشروں اور تمدنوں کے اندر موجود شقاوت و بدبختی ، ضلالت و گمراہی آج بھی لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لئے کافی ہیں کہ وہ اس زمانے میں بھی اخلاقی اقدارکے ویسے ہی محتاج ہیں جیسے پہلے تھے ۔
رسول اکرم ؐ کے اخلاق و کردار کا صاف و شفاف آئینہ عہد حاضر میں زندگی گذارے والے ہر انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے تاکہ وہ اس آئینہ میں اپنی زندگی کاحقیقی چہرہ دیکھے اور اسکے مطابق اپنی تباہ حال اور پریشان کن زندگی کوبدلنے کی کوشش کرے ۔
آپ کی زندگی ہی ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے،(انک لعلی خلق عظیم ) کے کلی خطاب سے جس طرح ہر انسان سمجھ سکتاہے کہ اخلاق رسولؐ کسی ایک شعبہ ٔ حیات سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر شعبۂ حیات میں اخلاق رسول صلی اللہ علیہ و آلہحرف آخر کی حیثیت رکھتاہے،اسی طرح (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ )کا عمومی خطاب ہر انسان کوباور کرارہاہے کہ آپ کے اخلاق کسی ایک دور حیات سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر دور کے افراد کے لئے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی زندگی اسوہ اور نمونہ ہے ۔
جس اخلاق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی ضوفشانی نے کل کے ضلالت و گمراہی سے بھرپور تاریک ماحول میں روشنی عطا کی اسی مکارم اخلاق میں آج بھی اتنی قوت و طاقت موجود ہے جو اس مردہ معاشرے کے جسم میں نئی روح پھونک دے۔
آج کی اہم ترین ضرورتیں
١۔صداقت
صداقت اس زمانے کی اہم ترین ضرورت ہے ،اسلامی آئین اور انسانی نقطۂ نگاہ سے یہ جتنی اچھی صفت ہے اور جس کے لئے بے پناہ تاکید کی گئی ہے،عہد حاضر میں وہی صفت مفقود یاانتہائی کم ہے،لوگ اپنے مادی مفادات میں صداقت کوسب سے بڑی رکاوت سمجھتے ہوئے جھوٹ کے بڑے بڑے پل باندھتے ہیں۔حالانکہ" سچ"ترقی کی راہوں میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ انسان کو ترقی سے ہمکنار کرنے کا پہلا زینہ ہے۔حضرت علی علیہ السلام کا ارشادہے :"سچ کائنات میں چمکتا ہوا نور ہے اس آفتاب کی طرح جس سے ہر شئی روشنی حاصل کرتی ہے اس اعتبار سے کہ وہ کسی کونقصان نہیں پہنچاتا" ۔(٢٤)
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے سچ کو زندگی کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے فرمایا:''تم پر سچ بولنا ضروری ہے اس لئے کہ اسی میں کامیابی و کامرانی ہے''۔(٢٥)
صداقت کے متعلق قابل قدربات یہ ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے عرب بدوؤں کو ضلالت وگمراہی کی تنگ وتاریک دنیا سے نکالنے کے لئے جس چیز کو وسیلہ قرار دیا وہ ''صداقت''ہے،آپ نے پہلے صداقت کی اہمیت ذہنوںمیں راسخ کرنے کے لئے اپنی صداقت کااقرار کروایا تاکہ وہ معاشرتی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت سے آشناہوں اور اپنے اس اقدام سے ہر دور کے انسانوں کو باور کرایا کہ سچ ترقی کی راہوں میںرکاوٹ نہیں بلکہ ترقیوںکی طرف آگے بڑھنے کا پہلا زینہ اور اہم ترین وسیلہ ہے ۔
٢۔امانت
امانت ایک انتہائی ممدوح اور پسندیدہ صفت ہے جوانسان کی شخصیت کو لوگوں کی نظر میں ارزشمند بناتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ معاشرہ میں آپسی ارتباط اور اعتماد کودوبالا کرتی ہے، خداوندعالم کاارشادہے:بے شک اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتوںکو ان کے اہل تک پہنچادو۔(٢٦)
اصل میں اسلام نے اپنے حیات بخش پروگراموںاوربلند قوانین کے ذریعہ لوگوں کوبطور عموم ایک خوش گواراور سعادت بخش زندگی کی طرف اپنی ذمہ داریوں کوپورا کر کے بلایا ہے ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے بھی اسلام کے قوانین سے آشنا کرنے سے پہلے لوگوں کوامانت و صداقت سے آشنا کرایا اور اس کی اہمیت لوگوں کے ذہنوںمیں راسخ کی تاکہ کل جب اسلام کی دولت سے آشنا ہوں توامانت کانور ان کی مذہبی زندگی میں مزید روشنی عطا کر سکے۔
آپ کا ارشاد ہے:میری امت جب تک ایک دوسرے سے محبت و دوستی سے پیش آئے گی،ایک دوسرے کوہدیہ دے گی اورامانتداری کی بھر پور رعایت کرے گی وہ نیکیوں اور بلندیوں سے وابستہ رہے گی ۔(٢٧)
آج کے معاشرہ میں فسادات و انحرافات کے رائج ہونے اور اس میں مختلف بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کے افکار و عقول اور تمام شعبہ ہائے حیات پر "خیانت"کاغالب آجانا ہے،معاشرے کے اندر خیانت کی عمومیت اور بتدریج معاشرے کی معنویت کو ختم کر دینے والا خطرہ تمام خطروں سے زیادہ اہم ہے ، خیانت آئینہ روح کو تاریک بنا کر افکار انسانی کو گمراہی کے راستہ پر ڈال دیتی ہے ۔
معاشرے کے فسادات و انحرافات اور انسانی افکار کو گمراہ کن راستہ سے ہٹانے کے لئے ضروری ہے کہ اس عہد میں امانت کو اسی طرح رائج کیا جائے جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے عرب کے جاہل ماحول میں رائج کیا اور لوگوں کو حقیقی اور واقعی زندگی سے آشنا کرایا۔
٣۔اتحاد
اتحاد کائنات کی سب سے مضبوط رسی ہے ،جس سے انسان کی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کی سلامتی وابستہ ہے ،ایک سالم معاشرہ کے لئے بنیادی طور پر باہمی اعتماد اور اتحاد کا ہونا ضروری ہے اسی لئے صرف اسی معاشرے کو خوش بخت اور سعادت مند سمجھنا چاہیئے جس کے افراد کے درمیان مکمل رشتۂ اتحاد اور اطمینان پایا جاتاہے ،خدا کا ارشاد ہے :اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو ۔(٢٨)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے بھی معارف اسلام کی ترویج کے لئے پہلے باہمی اتحاد و اتفاق کی بنیاد ڈالی اور جن عربوں میں قبیلہ گرائی کی وجہ سے بے پناہ اختلاف تھا وہاںاتحاد کا چراغ روشن کیا اور پھر جب لوگوں نے اس اتحاد کی روشنی سے کسب فیض کرلیا تو خدا نے اتحاد و اختلاف کی حد بندی کرتے ہوئے فرمایا :ایمان والوخبردار!میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔(٢٩)
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کلمہ گو افراد باہم متحد ہو کر اپنے اور خدا کے دشمن سے نبرد آزما ہوں گے تو کامیابی و کامرانی نصیب ہو گی ،چنانچہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے اسی اتحاد کی مضبوط رسی کا سہارا لے کر مختلف جنگوں میں دشمنوں کے گلے میں پھانسی کا پھندا لگا یا اورانہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا ۔
اس تناظر میں آپ آج کے مسلم معاشرے کا تجزیہ کریں ،کتنا افسوس ہوتاہے اس وقت جب انسان کے دامن حیات میں اصول معاشرت کے در نایاب موجود ہوں اور پھر بھی وہ افلاس کا شکار نظر آئے ۔آج کے مسلم معاشرے کے لئے سب سے زیادہ افسوسناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ جس امت کے پیشوااور رہبر نے جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی تھی وہی آہستہ آہستہ مفقود ہوتی جارہی ہے،آج مسلمان سب سے زیادہ کمزور ہیں اس کی سب سے بڑی علت یہ ہے کہ آپس میں اتحاد و اتفاق نہیں ہے ،آج کے مسلمانوں کے پاس (واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا )کا حیات بخش اور مستحکم نسخہ تو ہے لیکن اس پر فکر کرنے اور عمل کرنے کا موقع نہیں ہے۔آج کے مسلم معاشروں کو کل کا اسلامی اور اتحاد سے بھرپور معاشرہ لمحۂ فکریہ دے رہا ہے کہ وہ باہم متحد ہوکر اسی طرح اپنے دشمنوں سے نبردآزما ہوں جس طرح رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہنے مسلمانوں کو اتحاد کا زریں اور مستحکم لباس پہناکا دشمنوں سے مقا بلہ کیا ۔
٤۔اخوت
بھائی چارگی اور اخوت نہ صرف گھریلو زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے بلکہ افراد معاشرہ سے وابستہ رہنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے، اسی لئے قرآن نے صرف مادری اور پدری بھائیوں کو آپس میں متحد رہنے کاحکم نہیں دیا ہے بلکہ معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایک مومن کو دوسرے مومن کا بھائی قرار دیاہے،خدا کا ارشادہے:مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادو اور اللہ سے ڈرو شاید تم پر رحم کیا جائے ۔(٣٠)
رسول اکرم ؐنے دائرۂ اخوت کومزید وسعت دیتے ہوئے فرمایا : مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتاہے اور نہ اس کا ساتھ چھوڑتاہے اور نہ اسے حوادث کے حوالے کرتاہے۔(٣١)
لیکن آج کی معاشرتی زندگی کاعالم یہ ہے کہ انسان جیسے جیسے مادی امور کی طرف آگے بڑھ رہا ہے اس کے اندر سے اخوت ،بھائی چارگی ،دوستی اور مہر و محبت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے ۔اسلامی ا خوت تو دور کی بات ہے خود حقیقی بھائیوں میں اخوت مفقودہے ،آج دو بھائیوں کے درمیان چند مادی چیزوں کے لئے اختلاف ہے اور کبھی کبھی تو یہ اختلاف اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ،اور بالآخر اپنے منحوس مقصد میں کامیاب ہو کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ان چند لمحوں کی خو شی صرف اس کے لئے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتی بلکہ وہ معاشرہ بھی اس کے منفی اور نقصان دہ اثرات سے محفوظ نہیں رہ پاتا جس میں وہ زندگی گذار رہا ہوتاہے ۔
کہاں گیا رسول اعظمؐ کاوہ درس اخوت جس نے کل کے ضدی عرب بدوؤںکوایک اچھی زندگی کی نوید دی تھی،جس نے عربوں کے خون میں وہ حرارت پیدا کردی تھی کہ مٹھی بھر آدمیوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ،آدھی دنیا کومسخر کر کے اپنے خاک نشین کملی والے تاج دارکے قدموں میں لا کر ڈال دیا تھا ...؟؟
کیا ہم رسول اکرم ؐ کے پیرو اور مطیع ہیں ؟ان معاشرتی بے راہ رویوں کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ ہم نے رسول اکرم ؐ کی زندگی کو اپنی زندگی کے لئے نمونہ اور اسوہ قراردیاہے ؟اگر آج کا انسان اپنی زندگی میںسیرت رسولصلی اللہ علیہ و آلہ کو اسوہ قرار دیتاتو حالت اتنی پست نہ ہوتی۔یقیناًہم نے تسلیم کیا ہے کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ آنے والی ہر نسل بشرکے لئے اسوہ ہے لیکن یہ اسوہ صرف ہمارے زبان و دل تک محدود ہوکر رہ گیا اور اسے عملی جامہ پہنا کر اپنے عمل کے ذریعہ اسوۂ حسنہ کی نشان دہی کرنے کاوقت نہیں اور نہ ہی مادی امور میں بے پناہ مصروف انسان وقت نکال پارہاہے ۔
جب کہ قرآن نے ہر دور کے انسان کومتوجہ کیا : ایمان والو! اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے ۔(٣٢)
آج رسول اکرمؐ کے اخلاقی دروس چیخ چیخ کر آواز دے رہے ہیں کہ آج کی معاشرتی آلودگیوں سے اپنے آپ کو نجات دلانے کیلئے ان دروس کوزندہ کرو جس میں تمہاری اورتم سے مربوط تمام افرادمعاشرہ کی زندگی وابستہ ہے ،وہی کل کا درس تمہاری آج کی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔
حرف دعا
آئیے اس قدسی صفات رسول کے عظیم بارگاہ میں اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کریں اور دعا کریں:
''اے غلاموں کو مقام فرزندی تک لانے والے ،اے قاتلوں کو مسیحائی کے سلیقے سکھانے والے ،اے انگاروں پر پھول کھلانے والے،اے وحشیوں کو بربادی سے نجات دلانے والے،اے عزائم انسانی کو آفاقیت عطا کرنے والے ،اور اے خلق عظیم پر فائز رسول ......آج کے اس تباہ حال اور برباد معاشرے کو راہ مستقیم پر لانے کے لئے اپنے نور اخلاق کی روشنی کا تھوڑا ساحصہ بھیک کی صورت میں عطا فرمائیے تاکہ انسانوں کا وقار ،اس کی گرتی ہوئی انسانیت پھر سے واپس مل جائے اور وہ ان اخلاقی قدروں سے آشنا ہو جائے جو اس کی زندگی اور معاشرے کی ترقی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ۔
نوٹ: مکمل مضمون پڑھنے کے لئے ـ’’ اخلاق رسول اکرمؐ، آج کی ضرورت قسط (۱)‘‘ یہاں پر کلک کریں۔
حوالجات
٢٢۔اخلاقی و نفسیاتی مسائل کا حل ٦٦
٢٣۔اخلاقی و نفسیاتی مسائل کاحل٤٤
٢٤۔مستدر ک الوسائل ٤٥٤٨
٢٥۔بحار الانوار ٩٢١٠
٢٦۔نساء ٥٨
٢٧۔عیون اخبار رضا ٣٢١نقل از یک ہزار حدیث ١٤٣
٢٨۔آل عمران ١٠٣
٢٩۔حجرات ١٠
٣١۔ مہجة البیضاء ج١ ص ٣٣١
٣٢۔انفال/٢٤